ہونٹوں پر صحرا رہتا ہے آنکھ میں کھارا پانی

ہونٹوں پر صحرا رہتا ہے آنکھ میں کھارا پانی
ایک کنارا آگ ہے میرا ایک کنارہ پانی


سوکھے پیڑ اور پیاسی آنکھیں آسمان کو دیکھیں
مٹی میں جا کر چھپ بیٹھا دھوپ کا مارا پانی


چاک کی اس گردش نے ماہ و سال لپیٹ لیے
کوزہ گر کی ساری پونجی مٹی گارا پانی


آتش گیر مسافت ہے اور اک رستا مشکیزہ
کب تک ساتھ رہے گا آخر یہ بیچارہ پانی


آنکھ کے بہتے اشکوں سے ہی پیاس بجھانی ہوگی
ہجر کے تپتے صحرا میں ہے صرف سہارا پانی


کون گلی سے گزروں اور میں کیسے تجھ تک آؤں
بستی ساری دلدل ہے اور رستہ سارا پانی


صحرا کو ہے یاد ابھی تک پیاس کی فتح کامل
ظلم کو کیسے مات ہوئی اور کیسے ہارا پانی