دل پر ترے ہجراں میں قیامت کی گھڑی ہے
دل پر ترے ہجراں میں قیامت کی گھڑی ہے
احساس کے تابوت میں اک لاش پڑی ہے
کیچڑ کا تکلف نہ کرو شہر کے لوگو
آنچل پہ تو رسوائی کی اک چھینٹ بڑی ہے
سینے سے لگو ہنس کے رہے یاد یہ لمحہ
کھو کر ہمیں رونے کو تو اک عمر پڑی ہے
ممکن ہے تو اک بار اسے توڑ دے آ کر
برسوں ہوئے دہلیز پہ امید کھڑی ہے
کس طرح مری خاک سے نکلے گی وہ صورت
آنکھوں میں بسی ہے تو کہیں دل میں گڑی ہے
سینے میں نئی سانس اتاری ہے کسی نے
برسوں سے پڑی گرد مرے دل سے جھڑی ہے
کوشش تو بہت کی تھی کہ شیشے میں اتاروں
تصویر بھی اس شخص کی پتھر میں جڑی ہے