مرہم بھی مرے زخم کا آزار سے نکلا

مرہم بھی مرے زخم کا آزار سے نکلا
اقرار کا پہلو ترے انکار سے نکلا


تھا تیری رعونت کے پس پردہ کوئی اور
سر اور کسی کا تری دستار سے نکلا


کس شخص کی رہ دیکھنے بیتاب سا ہو کر
سایا کبھی در سے کبھی دیوار سے نکلا


یادوں کے کسی باب میں رکھا ہوا کوئی خواب
سوکھے ہوئے اک پھول کی مہکار سے نکلا


اس سنگ صفت شخص کے لہجے میں محبت
یا چشمہ شیریں کسی کہسار سے نکلا


دنیا تری صورت کے خریدار بہت تھے
لٹ کر ہی گیا جو ترے بازار سے نکلا


اس خاک کی تہہ میں تھی کوئی موج بلا خیز
لفظوں کا سمندر مرے افکار سے نکلا