گل و گلزار گہر چاند ستارے بچے
گل و گلزار گہر چاند ستارے بچے
رنگ و بو نور کے پیکر ہیں یہ سارے بچے
آئنے ہیں کہ دمکتے ہوئے چہرے ان کے
ایسے شفاف کہ دریاؤں کے دھارے بچے
کتنے معصوم کے یہ سانپ پکڑنا چاہیں
کتنے بھولے ہیں کہ چھوتے ہیں شرارے بچے
آنے والوں کو بتا دیتے ہیں گھر کی باتیں
کب سمجھتے ہیں یہ آنکھوں کے اشارے بچے
خود سے دس بیس برس اور بڑے لگتے ہیں
گھر بناتے ہوئے دریا کے کنارے بچے
گاؤں جاتا ہوں تو چوپال کا اک بوڑھا درخت
باہیں پھیلا کے یہ کہتا کہ آ رے بچے
اب نہ وہ کھیل کھلونے نہ شرارت فاروقؔ
کتنے خاموش اکیلے ہیں ہمارے بچے