فیصلے وہ نہ جانے کیسے تھے
فیصلے وہ نہ جانے کیسے تھے
رات کی رات گھر سے نکلے تھے
یاد آتے ہیں اب بھی رہ رہ کر
شہر میں کچھ تو ایسے چہرے تھے
کیا زمانہ تھا وہ کہ ہم دونوں
ایک دوجے کا دکھ سمجھتے تھے
کس کڑی دھوپ کے سفر میں ہیں
نام پیڑوں پہ جن کے لکھے تھے
جانے کس گل بدن کی یاد آئی
فصل گل میں اداس بیٹھے تھے
وقت سا چارہ گر بھی ہار گیا
ہجرتوں کے تو زخم ایسے تھے
پہلی بارش ہی لے گئی فاروقؔ
رنگ سارے کے سارے کچے تھے