ہے ایسا وقت کہ خود پر کرم کیا جائے

ہے ایسا وقت کہ خود پر کرم کیا جائے
ضرورتوں کو ذرا اپنی کم کیا جائے


ہو اپنی آنکھوں میں ہر دم وہ ایک ہی چہرہ
سو اپنی آنکھوں پہ ایسا ہی دم کیا جائے


قبولیت کا سبب ایک یہ بھی ہو شاید
دعا کے وقت میں آنکھوں کو نم کیا جائے


وہ ساتھ چھوڑ گیا تو ملال کیا اس کا
بچھڑ گیا جو کہیں اس کا غم کیا جائے


کیا ہے ہم نے زمانے کا احترام بہت
کچھ اپنی ذات کو اب محترم کیا جائے


یہ داستان محبت تو خوب ہے فاروقؔ
کوئی فسانہ لہو سے رقم کیا جائے