کسی کے بچھڑنے کا ڈر ہی نہیں

کسی کے بچھڑنے کا ڈر ہی نہیں
سفر میں کوئی ہم سفر ہی نہیں


بہت شوق گھر کو سجانے کا تھا
مگر کیا کریں اپنا گھر ہی نہیں


ابھی دل میں روشن ہے ایسا دیا
ہواؤں کو جس کی خبر ہی نہیں


خدا جانے کیسی خطا ہو گئی
دعاؤں میں اب کے اثر ہی نہیں


لکھوں زخم کو پھول دل کو چمن
نہیں مجھ میں ایسا ہنر ہی نہیں


سنیں بھی تو کیا اور سنائیں تو کیا
کوئی داستاں مختصر ہی نہیں


چلو آج فاروقؔ سے بھی ملیں
کئی دن سے اس کی خبر ہی نہیں