موسم نے رخصتی جو سنائی بہار کی
موسم نے رخصتی جو سنائی بہار کی
بھر آئی آنکھ گل ہی نہیں خار خار کی
جائیں تو جائیں بچھڑے ہوئے لوگ کس طرف
ہیں پھول نقش پا کے نہ خوشبو غبار کی
اک پل دلوں کے درمیاں قائم ہے آج تک
طوفاں نے توڑنے کی تو کوشش ہزار کی
مدت سے تک رہا ہے مری راہ روزگار
اے عشق خوب تیری روش اختیار کی
اکثر ہیں دیکھنے میں بہت خوش نما مگر
رشتوں میں اب مہک ہے کہاں اعتبار کی
پھرتی ہے مجھ کو لے کے نہ جانے کہاں کہاں
فاروقؔ میری خاک ہے یہ کس دیار کی