پھول خوشبو چاندنی مہتاب وہ

پھول خوشبو چاندنی مہتاب وہ
پر مری خاطر ہے کوئی خواب وہ


اپنی اپنی الجھنوں میں یار گم
اب کہاں ہے حلقۂ احباب وہ


اس قدر بیتاب آخر کس لیے
یہ نہیں ہے اے دل بے تاب وہ


بجھ گیا کچھ دل بھی اب کے ہجر میں
اور چہرے پر کہاں ہے تاب وہ


ایک صحرا کی طرح میں تشنہ لب
ایک ندی کی طرح سیراب وہ


دشمن جاں ہے مگر اچھا لگا
جانتا ہے کچھ ادب آداب وہ


جاگنے کا کام مجھ کو سونپ کر
دیکھتا رہتا ہے میرے خواب وہ


میں ہوں ارزاں ساحلوں کی ریت سا
اور کوئی گوہر نایاب وہ


دور تک فاروقؔ تپتی ریت ہے
اب یہاں آتے نہیں سیلاب وہ