آنکھ ہو اور کوئی خواب نہ ہو
آنکھ ہو اور کوئی خواب نہ ہو
نازل ایسا کہیں عذاب نہ ہو
کچھ تو محفوظ رکھیے سینے میں
زندگانی کھلی کتاب نہ ہو
صرف کیجے نہ اس قدر خود کو
لاکھ چاہو تو پھر حساب نہ ہو
اس لیے کاٹتا ہوں یہ گھڑیاں
وقت کی چال کامیاب نہ ہو
گونج کیسی ہے کوہساروں میں
یہ کسی چیخ کا جواب نہ ہو
کیا چمکتا ہے تپتے صحرا میں
دیکھ چھو کر کہیں یہ آب نہ ہو
یہ جلن پیٹھ میں ہے کیوں فاروقؔ
پشت پر تیری آفتاب نہ ہو