شجر میں شجر سا بچا کچھ نہیں

شجر میں شجر سا بچا کچھ نہیں
ہواؤں سے پھر بھی گلا کچھ نہیں


کہا کیا گزرتے ہوئے ابر نے
جھلستی زمیں نے سنا کچھ نہیں


کناروں پہ لکھا تھا کیا کیا مگر
کسی موج نے بھی پڑھا کچھ نہیں


چلو اب کسی کی دعا مل گئی
مرے پاس ویسے بھی تھا کچھ نہیں


اسے اب بھی فاروقؔ کہتے ہو گھر
اب اس میں تو گھر سا بچا کچھ نہیں