بے درد لمحہ
بہت بے درد لمحہ تھا ہمارے درمیاں آ کر نہیں پل بھر رکا جاناں نہ ہم دونوں سے کچھ پوچھا نہ اس نے کچھ بھی بتلایا فقط چھو کر ہمیں گزرا لہو میں سرسراہٹ سی زباں میں لڑکھڑاہٹ سی عطا کرکے بھلا بیٹھا بہت بے درد لمحہ تھا بہت ہی یاد آتا ہے
بہت بے درد لمحہ تھا ہمارے درمیاں آ کر نہیں پل بھر رکا جاناں نہ ہم دونوں سے کچھ پوچھا نہ اس نے کچھ بھی بتلایا فقط چھو کر ہمیں گزرا لہو میں سرسراہٹ سی زباں میں لڑکھڑاہٹ سی عطا کرکے بھلا بیٹھا بہت بے درد لمحہ تھا بہت ہی یاد آتا ہے
کل شب فون کیا جب تم نے ہولے ہولے سے یوں بولے جاناں سن لو تم نے آ کر چاہت کا احساس دلا کر میرے دل کو جیت لیا ہے اتنی جلدی واپس کیوں تم لوٹ گئی ہو پلٹ کے ایک نظر بھی نہ دیکھا اس کی جانب آج تلک جو دیکھ رہا ہے راہ تمہاری جس کو سچ مچ مار گئی ہے چاہ تمہاری
مت تہذیب تمدن کی تم ہم سے بات کرو دل کا درد چھلک جائے گا ورنہ آنکھوں سے غیرت کے اس نام پہ اب تک جتنے خون ہوئے ان میں کل اک چار سال کی بچی بھی دیکھی جس نے ہاتھ میں کپڑے کی اک گڑیا تھامی تھی مٹھی میں اک ٹافی تھی جو اس نے کھانی تھی اس کی پلکوں پر حیرت تھی حیرت میں تھا خوف گردن پر خنجر کا ...
کہا تھا ناں محبت خاک کر دے گی جلا کر راکھ کر دے گی کہیں بھی تم چلے جاؤ کسی کے بھی بنو تم جس کسی کو چاہے اپناؤ ہماری یاد سے پیچھا چھڑانا اس قدر آساں نہیں جاناں کہا تھا ناں محبت خاک کر دے گی جلا کر راکھ کر دے گی
سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے ان میں کچھ کمیٹڈ بھی ہوتے ہیں لیکن سنا ہے اب یہ قسم نایاب ہو گئی ہے جیسے ڈائناسور
کوئی تو بات ایسی تھی جدائی کا سبب ٹھہری جو صدیوں کے سفر سے تھی مگر پلکوں پہ پل بن کر کھٹکتی ہے نفس میں آ کے چبھتی ہے جو دل میں چھید کرتی ہے زمانے پر عیاں سب بھید کرتی ہے کروں جب یاد تو یہ سانس رکتا ہے یہ دل تھم تھم کے چلتا ہے کوئی تو بات ایسی تھی
خدا نے جب شفا تقسیم کی سارے زمانے میں تمہاری انگلیوں پر اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا کسی بیمار کو چھو لو شفا اس کا مقدر ہے تم ہر بیمار کو اپنا سمجھتے ہو مداوا اس کا کرتے ہو ہر اک بیمار کے چہرے پہ رونق تم سے قائم ہے دعا عیسائی کی تم کو لگ گئی شاید تمہی امید ہو اس کی شفا ہاتھوں پہ تم نے رب ...
کبھی ہم پھول ہوتے تھے گلابی نرم و نازک اوس میں بھیگا مہکتا مسکراتا خوشبوؤں کو چومنے والا محبت کرنے والے جھوم اٹھتے جب ہمیں پاتے ہمیں پوروں سے چھو کر روح تک محسوس کرتے تھے کئی کالر کئی آنکھیں انوکھے وصل کے لمحے ہمارے منتظر ہوتے ہمارے حسن کے چرچے گلی کوچوں میں ہوتے تھے اداؤں کے ...
تمہیں اپنا بنانا کس قدر دشوار ہے جاناں مگر اس سے بھی مشکل ہے تمہیں دل سے بھلا دینا ذرا سی بات تھی جو تم سے کہنی تھی مگر کہنے کی نوبت ہی نہیں آئی مقدر نے نہایت ہی سہولت سے تمہیں میرا بنا ڈالا بنا مشکل کے پھر میں نے تمہیں دل سے بھلا ڈالا
وہ اکثر مجھ سے کہا کرتا کہ میں تمہاری شہرت سے بالکل بھی خائف نہیں ہوں میں بہت خوش ہوتا ہوں تمہاری کامیابیوں کو دیکھ کر لیکن لیکن جب تم کسی اجنبی کو کسی بھی اجنبی کو آٹوگراف دیتی ہو تو تو میں ڈر جاتا ہوں کیونکہ میں نے بھی تو میں نے بھی آغاز میں تم سے آٹوگراف ہی لیا تھا