طمانچہ

مت تہذیب تمدن کی تم ہم سے بات کرو
دل کا درد چھلک جائے گا ورنہ آنکھوں سے
غیرت کے اس نام پہ اب تک جتنے خون ہوئے
ان میں کل اک چار سال کی بچی بھی دیکھی
جس نے ہاتھ میں کپڑے کی اک گڑیا تھامی تھی
مٹھی میں اک ٹافی تھی جو اس نے کھانی تھی
اس کی پلکوں پر حیرت تھی
حیرت میں تھا خوف
گردن پر خنجر کا گھاؤ اتنا گہرا تھا
جیسے اس کو کاٹنے والا ہاتھ پرایا ہو
گھر کے غیرت مند مردوں سے پوچھ سکی نہ وہ
بابا بھیا بولو غیرت کس کو کہتے ہیں
مت تہذیب تمدن کی تم ہم سے بات کرو