Ejaz Ansari

اعجاز انصاری

اعجاز انصاری کی غزل

    تمام شہر کو حیران کرنے والا ہوں

    تمام شہر کو حیران کرنے والا ہوں میں اپنی موت کا اعلان کرنے والا ہوں میں جانتا ہوں کہ ہے فائدہ انہیں مجھ سے وہ سوچتے ہیں کہ نقصان کرنے والا ہوں ارادہ کر لیا اب تجھ کو بھول جانے کا میں خود کو بے سر و سامان کرنے والا ہوں سجا رہا ہوں وفاؤں سے دامن قرطاس اور اس کے پیار کو عنوان کرنے ...

    مزید پڑھیے

    عجب ہی کیا ہے اگر دھند میں غبار میں ہے

    عجب ہی کیا ہے اگر دھند میں غبار میں ہے وہ شخص اپنے بنائے ہوئے حصار میں ہے کہاں ہے وقت ابھی ہم کو دل لگانے کا ہماری سوچ ابھی فکر روزگار میں ہے غموں کے سائے میں خوشیوں کے پھول مہکے ہیں خزاں کا عکس بھی کچھ موسم بہار میں ہے جو اقتدار کے لائق نہ تھا کسی صورت ستم یہ ہے کہ وہی شخص ...

    مزید پڑھیے

    کھو جاؤں مشت خاک میں ایسا نہیں ہوں میں

    کھو جاؤں مشت خاک میں ایسا نہیں ہوں میں دریا ہوں اپنی ذات میں قطرہ نہیں ہوں میں گزروں گا جس جگہ سے نشاں چھوڑ جاؤں گا آندھی ہوں اپنے وقت کی جھونکا نہیں ہوں میں منزل سے یہ کہو کہ کرے میرا انتظار ٹھہرا ہوا ضرور ہوں بھٹکا نہیں ہوں میں پوچھی ہے خط میں آپ نے جو خیریت مری کیسے لکھوں ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ میں اپنے حفاظت کا عصا لے جانا

    ہاتھ میں اپنے حفاظت کا عصا لے جانا گھر سے جانا تو بزرگوں کی دعا لے جانا بات جب ترک تعلق ہی پہ آ پہنچی ہے اپنے خط بھی مرے کمرے سے اٹھا لے جانا جیب خالی ہے مگر دل میں بڑی وسعت ہے تم مرے گاؤں کے لوگوں سے وفا لے جانا تیرے ہاتھوں میں ہے پتوار مری کشتی کی تو جدھر چاہے اسی سمت بہا لے ...

    مزید پڑھیے

    یہ تیری یاد ہے تیرا خیال ہے کیا ہے

    یہ تیری یاد ہے تیرا خیال ہے کیا ہے اندھیری رات ہے پھر بھی بہت اجالا ہے وفا فریب ہے اعجازؔ عشق دھوکا ہے بنا غرض کے یہاں کون کس سے ملتا ہے غموں نے چہرا کچھ اتنا بگاڑ رکھا ہے کہ آئنہ ہو مقابل تو خوف آتا ہے بدن ہے شاخ کی مانند گل سا چہرہ ہے ہماری جاگتی آنکھوں نے کس کو دیکھا ہے غرض ...

    مزید پڑھیے

    غم حیات کا منظر بدلنے والا ہے

    غم حیات کا منظر بدلنے والا ہے خوشی مناؤ کہ سورج نکلنے والا ہے وہ شخص جس نے ہمیشہ خلوص بانٹا تھا ذرا سی بات پہ تیور بدلنے والا ہے غرور ہونے لگا اس کو اپنی شہرت پر یہ اژدہا اسے زندہ نگلنے والا ہے سنبھالو اپنے سفینے خود اپنے ہاتھوں میں سنا ہے آج سمندر مچلنے والا ہے وقار علم و ہنر ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک تحریر نفرت کی مٹانا چاہتا ہوں میں

    ہر اک تحریر نفرت کی مٹانا چاہتا ہوں میں محبت ہی محبت کا فسانہ چاہتا ہوں میں فصیلیں نفرتوں کی سب گرانا چاہتا ہوں میں امیر شہر کا لیکن اشارہ چاہتا ہوں میں اندھیری رات میں سورج اگانا چاہتا ہوں میں چراغوں میں لہو اپنا جلانا چاہتا ہوں میں فلک چھوتے مکانوں کی ہوس تم کو مبارک ہو فقط ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑ کے تجھ سے مجھے دکھ تو ہے ملال تو ہے

    بچھڑ کے تجھ سے مجھے دکھ تو ہے ملال تو ہے مگر یہ پیار نبھانا بھی اک کمال تو ہے کرم سہی نہ سہی اب ترے ستم ہی سہی یہی بہت ہے کہ تجھ کو مرا خیال تو ہے میں اس خیال سے شہرت سے دور رہتا ہوں عروج کتنا بھی ہو ایک دن زوال تو ہے میں بجھ گیا ہوں زمانے کی آندھیوں سے مگر مرا وجود سلگتا ہوا سوال ...

    مزید پڑھیے

    خدا اسے بھی کسی دن زوال دیتا ہے

    خدا اسے بھی کسی دن زوال دیتا ہے زمانہ جس کے ہنر کی مثال دیتا ہے وہ جب شعور کو لفظوں میں ڈھال دیتا ہے عجیب سوچ نرالے خیال دیتا ہے کوئی سمجھ نہ سکا اس کی دین کا اندازہ کبھی خوشی کبھی رنج و ملال دیتا ہے کبھی وہ زخم لگاتا ہے میرے سینے پر کبھی وہ پاؤں سے کانٹا نکال دیتا ہے اسی نے دی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے محافظوں سے ہراساں ہے زندگی

    اپنے محافظوں سے ہراساں ہے زندگی اس زندگی کے حال پہ حیراں ہے زندگی یوں رونما ہوئے مرے حالات میں تضاد گلشن کبھی تھی آج بیاباں ہے زندگی اس شخص کا بھی آج مقدر سنور گیا لکھا تھا جس کے در پہ پریشاں ہے زندگی گھر بیٹھنے سے مل نہ سکے گا کوئی سراغ عزم و عمل کی راہ میں پنہاں ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2