عجب ہی کیا ہے اگر دھند میں غبار میں ہے
عجب ہی کیا ہے اگر دھند میں غبار میں ہے
وہ شخص اپنے بنائے ہوئے حصار میں ہے
کہاں ہے وقت ابھی ہم کو دل لگانے کا
ہماری سوچ ابھی فکر روزگار میں ہے
غموں کے سائے میں خوشیوں کے پھول مہکے ہیں
خزاں کا عکس بھی کچھ موسم بہار میں ہے
جو اقتدار کے لائق نہ تھا کسی صورت
ستم یہ ہے کہ وہی شخص اقتدار میں ہے
خدا کو کرنا ہے واپس رہے خیال اعجازؔ
ہمارے پاس تو یہ زندگی ادھار میں ہے