بچھڑ کے تجھ سے مجھے دکھ تو ہے ملال تو ہے

بچھڑ کے تجھ سے مجھے دکھ تو ہے ملال تو ہے
مگر یہ پیار نبھانا بھی اک کمال تو ہے


کرم سہی نہ سہی اب ترے ستم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ تجھ کو مرا خیال تو ہے


میں اس خیال سے شہرت سے دور رہتا ہوں
عروج کتنا بھی ہو ایک دن زوال تو ہے


میں بجھ گیا ہوں زمانے کی آندھیوں سے مگر
مرا وجود سلگتا ہوا سوال تو ہے


نہ چاہ کر بھی مرا ذکر کرتے رہتے ہیں
مخالفوں میں یہ خوبی تو ہے کمال تو ہے


میں مطمئن ہوں بزرگوں سے رابطہ رکھ کر
جڑا ہوا مرے ماضی سے میرا حال تو ہے


ضعیف باپ کا سایہ بھی کم نہیں اعجازؔ
محاذ زیست میں یہ نام ایک ڈھال تو ہے