کھو جاؤں مشت خاک میں ایسا نہیں ہوں میں

کھو جاؤں مشت خاک میں ایسا نہیں ہوں میں
دریا ہوں اپنی ذات میں قطرہ نہیں ہوں میں


گزروں گا جس جگہ سے نشاں چھوڑ جاؤں گا
آندھی ہوں اپنے وقت کی جھونکا نہیں ہوں میں


منزل سے یہ کہو کہ کرے میرا انتظار
ٹھہرا ہوا ضرور ہوں بھٹکا نہیں ہوں میں


پوچھی ہے خط میں آپ نے جو خیریت مری
کیسے لکھوں جناب کہ اچھا نہیں ہوں میں


خوشبو ترے بدن کی مرے ساتھ ساتھ ہے
کہہ دے کوئی ہواؤں سے تنہا نہیں ہوں میں


حسن و شباب ساغر و مینا تھے سامنے
لیکن کسی بھی شب کہیں ٹھہرا نہیں ہوں میں


دے کر کھلونے مجھ کو جو بہلا رہے ہیں لوگ
اعجازؔ ان سے کہہ دو کہ بچہ نہیں ہوں میں