ہر اک تحریر نفرت کی مٹانا چاہتا ہوں میں

ہر اک تحریر نفرت کی مٹانا چاہتا ہوں میں
محبت ہی محبت کا فسانہ چاہتا ہوں میں


فصیلیں نفرتوں کی سب گرانا چاہتا ہوں میں
امیر شہر کا لیکن اشارہ چاہتا ہوں میں


اندھیری رات میں سورج اگانا چاہتا ہوں میں
چراغوں میں لہو اپنا جلانا چاہتا ہوں میں


فلک چھوتے مکانوں کی ہوس تم کو مبارک ہو
فقط سر کو چھپانے کا ٹھکانہ چاہتا ہوں میں


فسادوں سے کسی بھی قوم کو عظمت نہیں ملتی
امیر قوم کو اتنا بتانا چاہتا ہوں میں


نئی تہذیب کا کوئی گلہ شکوہ نہیں مجھ کو
مگر اپنے بزرگوں کا زمانہ چاہتا ہوں میں


کوئی صورت نہیں حالات کے تبدیل ہونے کی
اگرچہ کھل کے ہنسنا مسکرانا چاہتا ہوں میں


جہاں اعجازؔ ہر چہرے پہ شادابی نظر آئے
وہی موسم وہی منظر سہانا چاہتا ہوں میں