Ehtisham ul Haq Siddiqui

احتشام الحق صدیقی

احتشام الحق صدیقی کی غزل

    مرے وجود کا آئینہ صاف اسی نے کیا

    مرے وجود کا آئینہ صاف اسی نے کیا اسی کو کرنا تھا آخر معاف اسی نے کیا یہ میرا گوشۂ دل پاک اسی کے دم سے ہے کہ رات دن کا یہاں اعتکاف اسی نے کیا بنا بتائے وہ دل میں سما بھی سکتا ہے اتر کے دل میں یہ سب انکشاف اسی نے کیا میں اس کے عہد پہ اب بھی ہوں منتظر اس کا خود اپنے عہد سے بھی انحراف ...

    مزید پڑھیے

    ظلمت کشی کا قصد کیا اور چل پڑے

    ظلمت کشی کا قصد کیا اور چل پڑے مٹھی میں جگنوؤں کو لیا اور چل پڑے آتی رہے گی موت کو آنا جہاں پہ ہے ہم نے تو اپنا زہر پیا اور چل پڑے صحرا سے شہر آنے میں اور اہتمام کیا دامن کا اپنے چاک سیا اور چل پڑے ہم سے بدن بدوشوں کا رخت سفر کہاں بس اپنا خاکدان لیا اور چل پڑے عجلت تھی ہم کو چاند ...

    مزید پڑھیے

    ترے بدن کی نزاکتوں کا ہوا ہے جب ہم رکاب موسم

    ترے بدن کی نزاکتوں کا ہوا ہے جب ہم رکاب موسم نظر نظر میں کھلا گیا ہے شرارتوں کے گلاب موسم ہم اپنے گم گشتہ ولولوں پر خنک ہواؤں کے قہقہوں کا جواب دیتے جو ساتھ لاتا ہمارا عہد شباب موسم وہ ایک بنجر زمین گھر کی جو سن رہی تھی سبھی کے طعنے خوشا کہ اس بار اس زمیں کو بھی دے گیا اک گلاب ...

    مزید پڑھیے

    اور اب عقل کا بار نہیں گر سہ سکتے ہو

    اور اب عقل کا بار نہیں گر سہ سکتے ہو دل کے اس پاگل خانے میں رہ سکتے ہو میرے دل میں رہنا راس نہیں آیا تو بے شک آنکھ سے آنسو بن کر بہہ سکتے ہو تم سر تا پا آگ ہو میں ہوں ٹوٹل پانی صاف ہے میرے ساتھ نہیں تم رہ سکتے ہو پتھر وتھر ظالم والم بے حس ویحس مجھ کو جو بھی کہنا چاہو کہہ سکتے ...

    مزید پڑھیے

    کس نے کی بات ابھی کون شناسا نکلا

    کس نے کی بات ابھی کون شناسا نکلا یاد آیا تو مرا اپنا ہی چہرہ نکلا گرمیٔ زیست نہیں آج مقدر میں مرے آج سورج بھی جو نکلا تو ادھورا نکلا لوٹ جانے میں لگیں گے مجھے برسوں شاید یہ سمندر تو مری سوچ سے گہرا نکلا جسم تو لے گیا وہ رات میں چوری کر کے صبح بستر سے مرے جسم کا خاکہ نکلا زحمت ...

    مزید پڑھیے

    سو تک گنتی بیس پہاڑے کام آئے

    سو تک گنتی بیس پہاڑے کام آئے ساری دولت میں یہ سکے کام آئے اتنے چہرے جیب میں رکھے پھرتے تھے وقت پڑے پر کتنے چہرے کام آئے تیری عیاشی تھی میری مجبوری تو نے کپڑے پھینکے میرے کام آئے جن کو چھت پر ڈال دیا تھا گرمی میں سردی میں وہ دھوپ کے ٹکڑے کام آئے آنکھوں نے ہی اس کو پالا پوسا ...

    مزید پڑھیے

    مجھ میں سے مرے جبہ و دستار نفی کر

    مجھ میں سے مرے جبہ و دستار نفی کر رہ جاؤں اگر باقی تو تشریح مری کر سب علم و ہنر بھول کے بچپن میں چلا جاؤں اے صاحب سحر ایسی کوئی جادوگری کر دیواروں سے بٹتے ہیں خرد مندوں کے خطے تو دشت جنوں میں نہ یہ دیوار کھڑی کر اک قافلہ پیاسوں کا گزرنا ہے یہاں سے اے دشت بلا اپنے سراپا کو نری ...

    مزید پڑھیے

    ایک بجا ہے رات کا اب تو سونے دو

    ایک بجا ہے رات کا اب تو سونے دو موبائل بھی گرم ہے ٹھنڈا ہونے دو آج تو پیاسے صبر کے گھر میں یکجا ہیں دریاؤں کو آج اکیلا رونے دو سوچ لو دل کو باہر چھوڑ کے آئے تو ہم دو میں سے رہ جائیں گے پونے دو آندھی نے جو بھر دی ہے ان آنکھوں میں جانے کس کی گرد ہے آنکھیں دھونے دو اس صوفہ پر لیٹ کے ...

    مزید پڑھیے

    شکریہ بیچ سفر آپ نے تنہا چھوڑا

    شکریہ بیچ سفر آپ نے تنہا چھوڑا اس طرح آپ نے مجھ سے مرا رشتہ جوڑا شدت طیش سے کانپ اٹھی ہیں ساری شاخیں جب بھی گلچیں نے کسی شاخ سے گل کو توڑا اپنے اندر سے وہ اک دم نہ نکالے گا مجھے مجھ کو آنکھوں سے وہ ٹپکائے گا تھوڑا تھوڑا ہم نے تہذیب سے میخانے کا بدلا ہے نظام ہم نے مے پھینکی نہ ...

    مزید پڑھیے

    جو اصل ہے میری وہی پوشاک پہن لوں

    جو اصل ہے میری وہی پوشاک پہن لوں سب کھیل ہوئے ختم چلوں خاک پہن لوں ہو جاؤں گا اس منظر گلشن میں کہیں ضم گل رنگ کوئی کرتا صد چاک پہن لوں غم ناکوں میں ہنستا ہوا اچھا نہ لگوں گا ٹھہرو میں کوئی چہرۂ غم ناک پہن لوں اس نرم بیانی کو مری کون سنے گا آواز پہ اک لہجۂ سفاک پہن لوں جانا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3