Ehtisham ul Haq Siddiqui

احتشام الحق صدیقی

احتشام الحق صدیقی کی غزل

    تھوڑی سی وضع اوڑھ لی اور وضع دار ہو گئے

    تھوڑی سی وضع اوڑھ لی اور وضع دار ہو گئے اصحاب عز و جاہ میں ہم بھی شمار ہو گئے ہم بھی چٹان تھے مگر ضرب شدید وقت سے ہر لمحہ ٹوٹتے رہے آخر غبار ہو گئے ترکش میں جس کے تیر تھے نہ ہاتھ میں کمان تھی شومئی بخت دیکھتے اس کا شکار ہو گئے منڈی میں لے تو آئے ہو لیکن وہ بک نہ پائیں گے موسم کی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ میں کتنا زہر ہے کولی بھر کر دیکھ

    مجھ میں کتنا زہر ہے کولی بھر کر دیکھ مرنا تو لازم ہے آج ہی مر کر دیکھ میری مٹی کب سے قید ہے مجھ میں تو اک دن باہر آ جا اور بکھر کر دیکھ سولہ منزل کون چڑھے بتلانے کو نیچے کیا ہے اپنے آپ اتر کر دیکھ روز ڈراتا رہتا ہے تو لوگوں کو اپنے آپ سے اک دن خود بھی ڈر کر دیکھ مجھ کو پڑھنا آتا ...

    مزید پڑھیے

    ہم شہر نطق کے تھے وہیں کے نہیں رہے

    ہم شہر نطق کے تھے وہیں کے نہیں رہے وہ چپ لگی ہمیں کہ کہیں کے نہیں رہے ہم خواب دیکھتے تھے بہت آسمان کے آخر میں یہ ہوا کہ زمیں کے نہیں رہے ہم میں تھے جانے کون سے کانٹے اگے ہوئے سب کے رہے ہیں آپ ہمیں کے نہیں رہے دل کو جھکا کے دل سے ادا کر دئے گئے سجدے رہین صرف جبیں کے نہیں رہے دو چار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3