Ehtisham ul Haq Siddiqui

احتشام الحق صدیقی

احتشام الحق صدیقی کی غزل

    مجھ میں سے رفتہ رفتہ گھٹاتا رہا مجھے

    مجھ میں سے رفتہ رفتہ گھٹاتا رہا مجھے وہ تھوڑا تھوڑا روز چراتا رہا مجھے میرے پروں میں میری زمیں باندھنے کے بعد وہ اپنی کہکشاں میں بلاتا رہا مجھے ہر رات آنسوؤں سے بھگویا مرا بدن ہر صبح دھوپ دے کے سکھاتا رہا مجھے سگریٹ پیتا میں بھی لبوں سے لگا رہا وہ بھی دھواں بنا کے اڑاتا رہا ...

    مزید پڑھیے

    ناکام ولولوں کو لیے بھاگتے رہے

    ناکام ولولوں کو لیے بھاگتے رہے ہم سر پہ دلدلوں کو لئے بھاگتے رہے نادیدہ منزلوں کی طرف ہم تمام عمر حاجت کے قافلوں کو لیے بھاگتے رہے وہ خوف تھا کہ درد کا احساس ہی نہ تھا تلووں میں آبلوں کو لیے بھاگتے رہے فرصت کہاں تھی دفن کریں میتوں کو ہم بس مردہ حوصلوں کو لیے بھاگتے رہے چھوڑا ...

    مزید پڑھیے

    شعور نو عمر ہوں نہ مجھ کو متاع رنج و ملال دینا

    شعور نو عمر ہوں نہ مجھ کو متاع رنج و ملال دینا کہ مجھ کو آتا نہیں غموں کو خوشی کے سانچوں میں ڈھال دینا حدود میں اپنی رہ کے شاید بچا سکوں میں وجود اپنا میں ایک قطرہ ہوں مجھ کو دریا کے راستے پر نہ ڈال دینا اگر خلا میں پہنچ گیا تو پلٹ کے واپس نہ آ سکوں گا تم اپنی حد کشش سے اونچا نہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو رو رہا تھا وہ ہنس پڑا وہ جو ہنس رہا تھا وہ رو دیا

    وہ جو رو رہا تھا وہ ہنس پڑا وہ جو ہنس رہا تھا وہ رو دیا یہاں اک جزیرہ بنا دیا وہاں اک جزیرہ ڈبو دیا یہ بنانے والے کا شوق ہے کہیں ہار ہے کہیں طوق ہے کہیں واہ ہے کہیں آہ ہے کہیں پا لیا کہیں کھو دیا وہ اسیر حسن بیان ہوں میں زبان کا وہ کسان ہوں کہ زمین مجھ کو جہاں دکھی وہیں اک خیال کو ...

    مزید پڑھیے

    یہ دنیا ہے یہاں اصلی کہانی پشت پر رکھنا

    یہ دنیا ہے یہاں اصلی کہانی پشت پر رکھنا لبوں پر پیاس رکھنا اور پانی پشت پر رکھنا تمناؤں کے اندھے شہر میں جب مانگنے نکلو تو چادر صبر کی صدیوں پرانی پشت پر رکھنا میں اک مزدور ہوں روٹی کی خاطر بوجھ اٹھاتا ہوں مری قسمت ہے بار حکمرانی پشت پر رکھنا تجھے بھی اس کہانی میں کہیں کھونا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تازہ ہو کہ ہو کوئی پرانی چاہئے

    کوئی تازہ ہو کہ ہو کوئی پرانی چاہئے وقت کو آگے بڑھانا ہے کہانی چاہئے تو مری دہلیز پر آ کر ٹھہر جاتا ہے کیوں تو تو دریا ہے تجھے تو بس روانی چاہئے ہاتھ میں جس کے بھی دیکھو آگ کا کشکول ہے اور ہر اک کشکول کو کچھ بوند پانی چاہئے زندگی اور موت دونوں میں ہے اک رنگ کرم تم بتاؤ تم کو کس ...

    مزید پڑھیے

    نصیب اب کے خوشی بے حساب لے آیا

    نصیب اب کے خوشی بے حساب لے آیا چراغ لینے گیا آفتاب لے آیا ابھی جلا کے اٹھا ہوں پرانے خوابوں کو وہ میرے واسطے پھر تازہ خواب لے آیا پھر آج بھاؤ سمندر کا آسمان پہ تھا پھر آج اپنے لئے میں سراب لے آیا فسردہ دیکھ کے اس کو بہت پشیماں ہوں میں ریگزار میں کیوں اک گلاب لے آیا تجھے تو ہاں ...

    مزید پڑھیے

    آ گیا جس کو بھی احساس کی وحشت پڑھنا

    آ گیا جس کو بھی احساس کی وحشت پڑھنا اس نے سیکھا ہی نہیں لفظ محبت پڑھنا سالہا سال گزر جاتے ہیں پڑھتے پڑھتے اتنا آسان کہاں درس صداقت پڑھنا پہلے اس جسم سے ہر خوف کے خلیے کو نکال تب کہیں آئے گا آداب بغاوت پڑھنا میری فرصت ہی بناتی ہے خد و خال مرے مجھ کو پڑھنا ہے تو پہلے مری فرصت ...

    مزید پڑھیے

    جو ہوا وہ ذہن میں تھا نہیں جو تھا ذہن میں وہ ہوا نہیں

    جو ہوا وہ ذہن میں تھا نہیں جو تھا ذہن میں وہ ہوا نہیں جو گمان میں نہ تھا مل گیا جو تھا ہاتھ میں وہ ملا نہیں وہ جو ہم میں تم میں تھا فاصلہ یہ کمال اس کے سبب ہوا وہ سنا گیا جو کہا نہیں جو کہا گیا وہ سنا نہیں وہی کبر ہے مری خاک میں وہی جہل ہے مری ذات میں جو شرار ہے وہ بجھا نہیں جو چراغ ...

    مزید پڑھیے

    حصول مقصد میں آخرش یوں رہے گی قسمت دخیل کب تک

    حصول مقصد میں آخرش یوں رہے گی قسمت دخیل کب تک تم اپنی ناکامیوں پہ دو گے مقدروں کی دلیل کب تک سمندروں کی ریاستوں کو لٹا کے آوارہ پھرنے والو اب ایک قطرہ کی منتوں سے کرو گے خود کو ذلیل کب تک تو مرد مومن ہے اپنی منزل کو آسمانوں پہ دیکھ ناداں کہ راہ ظلمت میں ساتھ دے گا کوئی چراغ علیل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3