Ehtisham ul Haq Siddiqui

احتشام الحق صدیقی

احتشام الحق صدیقی کے تمام مواد

23 غزل (Ghazal)

    مرے وجود کا آئینہ صاف اسی نے کیا

    مرے وجود کا آئینہ صاف اسی نے کیا اسی کو کرنا تھا آخر معاف اسی نے کیا یہ میرا گوشۂ دل پاک اسی کے دم سے ہے کہ رات دن کا یہاں اعتکاف اسی نے کیا بنا بتائے وہ دل میں سما بھی سکتا ہے اتر کے دل میں یہ سب انکشاف اسی نے کیا میں اس کے عہد پہ اب بھی ہوں منتظر اس کا خود اپنے عہد سے بھی انحراف ...

    مزید پڑھیے

    ظلمت کشی کا قصد کیا اور چل پڑے

    ظلمت کشی کا قصد کیا اور چل پڑے مٹھی میں جگنوؤں کو لیا اور چل پڑے آتی رہے گی موت کو آنا جہاں پہ ہے ہم نے تو اپنا زہر پیا اور چل پڑے صحرا سے شہر آنے میں اور اہتمام کیا دامن کا اپنے چاک سیا اور چل پڑے ہم سے بدن بدوشوں کا رخت سفر کہاں بس اپنا خاکدان لیا اور چل پڑے عجلت تھی ہم کو چاند ...

    مزید پڑھیے

    ترے بدن کی نزاکتوں کا ہوا ہے جب ہم رکاب موسم

    ترے بدن کی نزاکتوں کا ہوا ہے جب ہم رکاب موسم نظر نظر میں کھلا گیا ہے شرارتوں کے گلاب موسم ہم اپنے گم گشتہ ولولوں پر خنک ہواؤں کے قہقہوں کا جواب دیتے جو ساتھ لاتا ہمارا عہد شباب موسم وہ ایک بنجر زمین گھر کی جو سن رہی تھی سبھی کے طعنے خوشا کہ اس بار اس زمیں کو بھی دے گیا اک گلاب ...

    مزید پڑھیے

    اور اب عقل کا بار نہیں گر سہ سکتے ہو

    اور اب عقل کا بار نہیں گر سہ سکتے ہو دل کے اس پاگل خانے میں رہ سکتے ہو میرے دل میں رہنا راس نہیں آیا تو بے شک آنکھ سے آنسو بن کر بہہ سکتے ہو تم سر تا پا آگ ہو میں ہوں ٹوٹل پانی صاف ہے میرے ساتھ نہیں تم رہ سکتے ہو پتھر وتھر ظالم والم بے حس ویحس مجھ کو جو بھی کہنا چاہو کہہ سکتے ...

    مزید پڑھیے

    کس نے کی بات ابھی کون شناسا نکلا

    کس نے کی بات ابھی کون شناسا نکلا یاد آیا تو مرا اپنا ہی چہرہ نکلا گرمیٔ زیست نہیں آج مقدر میں مرے آج سورج بھی جو نکلا تو ادھورا نکلا لوٹ جانے میں لگیں گے مجھے برسوں شاید یہ سمندر تو مری سوچ سے گہرا نکلا جسم تو لے گیا وہ رات میں چوری کر کے صبح بستر سے مرے جسم کا خاکہ نکلا زحمت ...

    مزید پڑھیے

تمام