کس نے کی بات ابھی کون شناسا نکلا
کس نے کی بات ابھی کون شناسا نکلا
یاد آیا تو مرا اپنا ہی چہرہ نکلا
گرمیٔ زیست نہیں آج مقدر میں مرے
آج سورج بھی جو نکلا تو ادھورا نکلا
لوٹ جانے میں لگیں گے مجھے برسوں شاید
یہ سمندر تو مری سوچ سے گہرا نکلا
جسم تو لے گیا وہ رات میں چوری کر کے
صبح بستر سے مرے جسم کا خاکہ نکلا
زحمت نطق سے یوں بچ گئے دونوں آخر
میں ہی گونگا نہ تھا وہ شخص بھی بہرا نکلا