مرے وجود کا آئینہ صاف اسی نے کیا

مرے وجود کا آئینہ صاف اسی نے کیا
اسی کو کرنا تھا آخر معاف اسی نے کیا


یہ میرا گوشۂ دل پاک اسی کے دم سے ہے
کہ رات دن کا یہاں اعتکاف اسی نے کیا


بنا بتائے وہ دل میں سما بھی سکتا ہے
اتر کے دل میں یہ سب انکشاف اسی نے کیا


میں اس کے عہد پہ اب بھی ہوں منتظر اس کا
خود اپنے عہد سے بھی انحراف اسی نے کیا


ورق ورق میں عبارت ہی پڑھتا رہتا تھا
میں لفظ بیں تھا مجھے موشگاف اسی نے کیا