مجھ میں سے مرے جبہ و دستار نفی کر
مجھ میں سے مرے جبہ و دستار نفی کر
رہ جاؤں اگر باقی تو تشریح مری کر
سب علم و ہنر بھول کے بچپن میں چلا جاؤں
اے صاحب سحر ایسی کوئی جادوگری کر
دیواروں سے بٹتے ہیں خرد مندوں کے خطے
تو دشت جنوں میں نہ یہ دیوار کھڑی کر
اک قافلہ پیاسوں کا گزرنا ہے یہاں سے
اے دشت بلا اپنے سراپا کو نری کر
میں گھر میں ہی پیتا ہوں مگر یاروں کی خاطر
گھر سے ترے میخانے میں آ جاتا ہوں پی کر
اک چاک گریباں میں ہے اک چاک ہے دل میں
کیا ہوگا فقط چاک گریبان کو سی کر
جو ظلم کی رہ پر ہیں انہیں راہ سے بھٹکا
اچھا بھی کوئی کام تو اے تیرہ شبی کر
گر کچھ بھی نہیں پاس تو مٹی سے ہی بھر لے
اے صاحب خیرات تو دامن نہ تہی کر