Dilkash Sagari

دلکش ساگری

بھوپا ل کے شاعر۔ ’گمنام گوشے‘ اور ’بھوپال میں غزل‘ کے نام سے دو شعری انتخاب بھی مرتب کیے

A poet from Bhopal, edited two volumes of poetry called 'Bhopal Mein Ghazal' and 'Gumnaam Goshe'

دلکش ساگری کی غزل

    دوستو تم نے بھی دیکھی ہے وہ صورت وہ شبیہ (ردیف .. ح)

    دوستو تم نے بھی دیکھی ہے وہ صورت وہ شبیہ جو نگاہوں میں سما جاتی ہے منظر کی طرح مجھ کو اک قطرۂ بے فیض سمجھ کے نہ گزر پھیل جاؤں گا کسی روز سمندر کی طرح شہر آشوب میں چیزوں کا کوئی قحط نہیں زخم ملتے ہیں دکانوں میں گل تر کی طرح اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں ہے شاید ہائے وہ زلف جو کھل ...

    مزید پڑھیے

    فصل رسن و دار میں آ ہم نے سنا ہے

    فصل رسن و دار میں آ ہم نے سنا ہے پیغام ترا زلف رسا ہم نے سنا ہے رنگیں نظر آتے ہیں ترے کوچہ و بازار گزرا ہے کوئی آبلہ پا ہم نے سنا ہے کیا بات ہے اس کوچۂ دل دار کی یارو پھرتی ہے کئی دن سے صبا ہم نے سنا ہے دیکھی ہے ترے عارض گل رنگ میں بجلی کہتے تری زلفوں کو گھٹا ہم نے سنا ہے یہ رنگ یہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ حسن ظن سے جائے نہ حسن یقیں سے ہم

    وہ حسن ظن سے جائے نہ حسن یقیں سے ہم بیٹھے ہیں شرط باندھ کے ایک مہ جبیں سے ہم ہم نے بساط علم و سیاست تو جیت لی دامن کو سی رہے ہیں مگر آستیں سے ہم لوگوں نے آسماں پہ کمندیں بھی ڈال دیں فارغ نہیں ہیں اب بھی کف صندلیں سے ہم کوئی تو موج آ کے ہمیں بھی اچھال دے کب تک پڑے رہیں صدف تہ نشیں ...

    مزید پڑھیے

    خواہش بے نام سے واقف نہیں

    خواہش بے نام سے واقف نہیں اک نشیلی شام سے واقف نہیں بہہ رہا ہوں میں تو دریا کی طرح فرق خاص و عام سے واقف نہیں فن ترے شعروں میں کیا آئے کہ تو حافظ و خیام سے واقف نہیں ہاں وہی دلکشؔ وہی بے آبرو کون اس بدنام سے واقف نہیں

    مزید پڑھیے

    پھر گلاب کی شاخیں سج گئیں قرینوں سے

    پھر گلاب کی شاخیں سج گئیں قرینوں سے آپ بھی اتر آئیں چاندنی کے زینوں سے اپنی پاک بازی کا پھر ثبوت دے لینا تم لہو تو دھو ڈالو پہلے آستینوں سے دشمنوں کے خیموں میں کھل کے جائیے صاحب ہاں مگر بچے رہئے خوش ادا حسینوں سے ان کے عارض و لب کو چاند سے نہ دو تشبیہ پتھروں کو کیا نسبت قیمتی ...

    مزید پڑھیے

    میں کہ غم کی آگ میں ڈوب کر سنور گیا

    میں کہ غم کی آگ میں ڈوب کر سنور گیا اور ہر گریز پا اپنی موت مر گیا آپ مضمحل نہ ہوں دل کی واردات پر پھول تھا جھلس گیا رنگ تھا بکھر گیا مجھ سے کیا زوال کی مناسبت کہ دوستو دن ڈھلے تو اور بھی غم مرا نکھر گیا ان کو چھو لیا نگاہ نے تو یہ لگا مجھے جیسے کوئی روح میں دور تک اتر گیا چہرۂ ...

    مزید پڑھیے

    جو بجھ چکے ہیں وہ لمحے اجالتا کیوں ہے

    جو بجھ چکے ہیں وہ لمحے اجالتا کیوں ہے مرے بدن پہ خراشیں بھی ڈالتا کیوں ہے میں معترض تو نہیں ہوں مگر یہ سمجھا دے جو مارنا ہے تو دنیا کو پالتا کیوں ہے تجھے تلاش ہے جس کی وہ تیری ذات میں ہے یہ کوہ و بن یہ سمندر کھنگالتا کیوں ہے نہیں ہے وہ ترا کوئی تو پھر ضرورت کیا تو اس کے حسن کو ...

    مزید پڑھیے

    خار کو پھول کہو دشت کو گلزار کہو

    خار کو پھول کہو دشت کو گلزار کہو اور اس جبر کو آزادیٔ افکار کہو جن کے ہاتھوں میں علم اور نہ کمر میں شمشیر وہ بھی کہتے ہیں ہمیں قافلہ سالار کہو میں تو اک شوخ کے دامن سے کروں گا تعبیر تم اسے شوق سے بت خانے کی دیوار کہو زلف بہکے تو اسے باد بہاراں سمجھو چاند نکلے تو اسے شعلۂ رخسار ...

    مزید پڑھیے

    کتنے میلے ہیں آسمانوں میں

    کتنے میلے ہیں آسمانوں میں اور ہم بند ہیں مکانوں میں نسل آدم نکل کے غاروں سے آ گئی ہے کتاب خانوں میں لوگ کرتے ہیں انتظار مرا تیر کھینچے ہوئے کمانوں میں اژدہے ہیں بہ صورت اشیا سر اٹھائے ہوئے دکانوں میں ہم وہ صحرا نورد ہیں جن کا نجد پھیلا ہے آسمانوں میں ساعتوں سے گزر رہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہے لہو شہیدوں کا نقش جاوداں یارو

    ہے لہو شہیدوں کا نقش جاوداں یارو مقتلوں میں ہوتی ہے آج بھی اذاں یارو سیل وقت ہوں مجھ کو کون روک سکتا ہے چھین لو قلم چاہے کاٹ لو زباں یارو بال و پر کی محرومی اور خوں رلاتی ہے جب بھی دیکھ لیتا ہوں سوئے آسماں یارو اس نگاہ بہم کو اور کس سے دوں نسبت نوک بے سناں یارو تیر بے کماں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2