جو بجھ چکے ہیں وہ لمحے اجالتا کیوں ہے
جو بجھ چکے ہیں وہ لمحے اجالتا کیوں ہے
مرے بدن پہ خراشیں بھی ڈالتا کیوں ہے
میں معترض تو نہیں ہوں مگر یہ سمجھا دے
جو مارنا ہے تو دنیا کو پالتا کیوں ہے
تجھے تلاش ہے جس کی وہ تیری ذات میں ہے
یہ کوہ و بن یہ سمندر کھنگالتا کیوں ہے
نہیں ہے وہ ترا کوئی تو پھر ضرورت کیا
تو اس کے حسن کو شعروں میں ڈھالتا کیوں ہے
اگر نہیں ہوں میں مانند مہر و مہ تو مجھے
زمیں سے کوئی فلک پر اچھالتا کیوں ہے
شکست و مرگ میں جب طرز آسماں ہے تو پھر
تو اپنے ٹوٹے ہوئے پر سنبھالتا کیوں ہے
نہ میں رسول نہ ہادی نہ پیشوا نہ امام
مجھے تو میرے وطن سے نکالتا کیوں ہے