خواہش بے نام سے واقف نہیں

خواہش بے نام سے واقف نہیں
اک نشیلی شام سے واقف نہیں


بہہ رہا ہوں میں تو دریا کی طرح
فرق خاص و عام سے واقف نہیں


فن ترے شعروں میں کیا آئے کہ تو
حافظ و خیام سے واقف نہیں


ہاں وہی دلکشؔ وہی بے آبرو
کون اس بدنام سے واقف نہیں