وہ حسن ظن سے جائے نہ حسن یقیں سے ہم
وہ حسن ظن سے جائے نہ حسن یقیں سے ہم
بیٹھے ہیں شرط باندھ کے ایک مہ جبیں سے ہم
ہم نے بساط علم و سیاست تو جیت لی
دامن کو سی رہے ہیں مگر آستیں سے ہم
لوگوں نے آسماں پہ کمندیں بھی ڈال دیں
فارغ نہیں ہیں اب بھی کف صندلیں سے ہم
کوئی تو موج آ کے ہمیں بھی اچھال دے
کب تک پڑے رہیں صدف تہ نشیں سے ہم
دیکھا تو جز الم نہیں ہنگامۂ وجود
بیکار منفعل رہے دنیا و دیں سے ہم
تخلیق شعر کے لئے لازم ہے خون دل
فصلیں اگا کے لائیں ہیں مشکل زمیں سے ہم