میں کہ غم کی آگ میں ڈوب کر سنور گیا
میں کہ غم کی آگ میں ڈوب کر سنور گیا
اور ہر گریز پا اپنی موت مر گیا
آپ مضمحل نہ ہوں دل کی واردات پر
پھول تھا جھلس گیا رنگ تھا بکھر گیا
مجھ سے کیا زوال کی مناسبت کہ دوستو
دن ڈھلے تو اور بھی غم مرا نکھر گیا
ان کو چھو لیا نگاہ نے تو یہ لگا مجھے
جیسے کوئی روح میں دور تک اتر گیا
چہرۂ حیات کو دیکھ کر لہو لہو
آج تو میں اپنے ہی دوستوں سے ڈر گیا