Daood Kaashmiri

داؤد کاشمیری

داؤد کاشمیری کی غزل

    ساتھ پا کر بھی ڈر گیا کوئی

    ساتھ پا کر بھی ڈر گیا کوئی راستے میں ٹھہر گیا کوئی کوئی کھڑکی تلک بھی آ نہ سکا کتنے زینے اتر گیا کوئی زعم شمشیر کھوکھلا نکلا خالی ہاتھوں بپھر گیا کوئی آبلہ پا بھٹکتا رہتا تھا تم سے مل کر نکھر گیا کوئی پھول بن کر کھلا تھا اے داؤدؔ دھول بن کر بکھر گیا کوئی

    مزید پڑھیے

    صورت سے جو دکھائی دئیے تھے غریب سے

    صورت سے جو دکھائی دئیے تھے غریب سے اب رشک ہر کسی کو ہے ان کے نصیب سے پھر اس کے بعد ہم بھی جلیں طور کی طرح بس ایک بار دیکھ لیں ان کو قریب سے جب سنگ ریزہ ہمدم دیرینہ ہو گئے تو تشنگی بجھا گئے جو تھے رقیب سے بے فکر بے خبر چلا جاتا تھا اک ہجوم تھم جاؤ اک صدا تھی وہ کس کی صلیب سے

    مزید پڑھیے

    بے خبر اپنے مقدر سے رہا پہلے پہل

    بے خبر اپنے مقدر سے رہا پہلے پہل جب قدم شہر زلیخا میں رکھا پہلے پہل بازگشت اس کی ہیں جتنی بھی یہ آوازیں ہیں ہر طرف گونج گئی ایک صدا پہلے پہل اپنی منزل کا وہیں ہو گیا عرفان مجھے جب ملا راہ میں اک نقش وفا پہلے پہل لوگ پہچان نہ پائے کسی دیوانے کو جانے کس طرح یہ دستور بنا پہلے ...

    مزید پڑھیے

    تو نہ پائے گا کہیں ذوق قضا میرے باد

    تو نہ پائے گا کہیں ذوق قضا میرے باد جو دم مرگ دے قاتل کو دعا میرے بعد لوگ کترا کے مرے گھر سے گزر جاتے تھے آج کیوں شہر میں ماتم ہے بپا میرے بعد تھا فرشتوں کا بھی معبود وہی ایک مگر اپنی تخلیق پہ نازاں ہے خدا میرے بعد ہم نے تنہائی سے یاری تو نبھا دی لیکن یار سے یار کبھی ہو نہ جدا ...

    مزید پڑھیے

    ہر حقیقت ہے وہی خواب پریشاں کہ جو تھا

    ہر حقیقت ہے وہی خواب پریشاں کہ جو تھا جذبۂ دل ہے وہی چاک گریباں کہ جو تھا مہ جبینوں کو ملے جور کے انداز نئے دل فگاروں کو وہی دیدۂ حیراں کہ جو تھا ہاں شہیدان وفا سر پہ کفن کج ہی رہے دیکھنا آج بھی ظالم ہے پشیماں کہ جو تھا نہ مسیحا نہ ہی منصور نہ فرہاد رہا اب کہاں رونق و ہنگامۂ ...

    مزید پڑھیے

    ہمدم با خبر میری تنہائیاں

    ہمدم با خبر میری تنہائیاں مونس معتبر میری رسوائیاں تنگیٔ ارض کا مجھ کو شکوہ ہے یوں آسمانوں کی دیکھی ہیں پہنائیاں مینڈکوں کی طرح اچھلے تالاب میں ناپتے کیا سمندر کی گہرائیاں وہ جو عضو بدن کی طرح ساتھ تھے یاد ہیں آج بھی ان کی پرچھائیاں دانش و عقل گمراہ کرتی رہی زیست کھوتی رہی ...

    مزید پڑھیے

    مے خانہ کی رونق ہے جدا شان حرم اور

    مے خانہ کی رونق ہے جدا شان حرم اور مے کش کا مزاج اور ہے زاہد کا بھرم اور ناکامیٔ تکمیل تمنا ہے اک آغاز اسباب غم جاں تو ابھی ہوں گے بہم اور کچھ دشت نوردی کے تو کچھ کوہ کنی کے افسانۂ تشہیر وفا ہوں گے رقم اور پسپائی پہ آمادہ جو سرداروں کو دیکھا ہم لے کے بڑھے خون تمنا کا علم اور اک ...

    مزید پڑھیے

    گئے جو کوچے میں اس کے تو اتنا پیار ملا

    گئے جو کوچے میں اس کے تو اتنا پیار ملا مگر یہ کیا کہ ہر اک شخص بے قرار ملا بھلانا چاہا تھا اس کو مگر بھلا نہ سکے وہ ایک شخص جو رستے میں بار بار ملا حقیقتوں کو فسانوں میں جب سے الجھایا فریب و مکر و سیاست کو اعتبار ملا کسی نے کر دیا برباد اس کا غم بھی نہیں اسی بہانے زمانے کو رازدار ...

    مزید پڑھیے

    اگر جہاں میں خدا کے سوا کچھ اور نہیں

    اگر جہاں میں خدا کے سوا کچھ اور نہیں تو پھر نصیب دعا کے سوا کچھ اور نہیں ہمارے پاس ہمارا ضمیر ہے لوگو تمہارے پاس انا کے سوا کچھ اور نہیں کبھی وفا تھی محبت میں اور خلوص بھی تھا حیات آج جفا کے سوا کچھ اور نہیں وہ خود ہی کہتے ہیں اور خود ہی سنتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس صدا کے سوا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    لوگ غم سے ڈرتے ہیں میں خوشی سے ڈرتا ہوں

    لوگ غم سے ڈرتے ہیں میں خوشی سے ڈرتا ہوں تیرگی سے کیا ڈرنا روشنی سے ڈرتا ہوں میں نکل پڑا گھر سے اب سفر میں جو بیتے آگے چلتے رہنا ہے واپسی سے ڈرتا ہوں یہ بھی جانور سارے وہ بھی جانور سارے جانے کیسی بستی ہے آدمی سے ڈرتا ہوں رہزن خلوص جاں رہزن مسرت ہے رہنمائی علم و آگہی سے ڈرتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2