Daood Kaashmiri

داؤد کاشمیری

داؤد کاشمیری کی غزل

    میں جب توہمات سے یکسر گزر گیا

    میں جب توہمات سے یکسر گزر گیا اپنی ہی شکل دیکھ کے کیوں آج ڈر گیا کل تک جو شور کرتے تھے خاموش ہو گئے شاید کہ شہر میں کوئی دیوانہ مر گیا بے عکس آئنہ تو کسی کام کا نہ تھا پتھراؤ کیوں ہوا کہ وہ ٹوٹا بکھر گیا راہوں نے آنکھیں موند لیں انجانے خوف سے اک حادثے کو ساتھ لئے وہ جدھر ...

    مزید پڑھیے

    نوائے زیست سے ملتی مری نوا تو نہیں

    نوائے زیست سے ملتی مری نوا تو نہیں مری نوا میں چھپی سی تری صدا تو نہیں سکوت نغمہ سرائی کا منتہا تو نہیں خموشی شوخ بیانی کی اک سزا تو نہیں کبھی نہ الجھے ہوں جس سے کبھی نہ ٹکرائے دیار دوست میں ایسا کوئی بچا تو نہیں اداسیوں میں کمی سے خیال آتا ہے یہ خلوتیں بھی تری طرح بے وفا تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2