اسرار جہاں لطیفۂ غیبی ہیں
اسرار جہاں لطیفۂ غیبی ہیں سب عالم تحت و فوق ترکیبی ہیں واں بارش و امساک یہاں پیدا وار یہ چرخ و زمیں دونوں میاں بی بی ہیں
داغ کے ہم عصر، اردو اور فارسی میں شاعری کی، جدید شاعری کی تحریک سے متاثر ہوکر نیے انداز کی نظمیں بھی لکھیں
A contemporary of Dagh Dehlvi, wrote poems of new tone and tenor under the influence of modernist writing
اسرار جہاں لطیفۂ غیبی ہیں سب عالم تحت و فوق ترکیبی ہیں واں بارش و امساک یہاں پیدا وار یہ چرخ و زمیں دونوں میاں بی بی ہیں
ہاں جہل تمہیں سے رنگ لایا پھر کیوں لایا تو گلا زباں پر آیا پھر کیوں گر جانتے تھے خانہ خرابی کے سبب مہماں کو میزباں بنایا پھر کیوں
بیدار نہیں کوئی جہاں خواب میں ہے نیرنگ عجب عالم اسباب میں ہے کچھ خواب میں کچھ قید میں کچھ صحرا میں اک عمر سے کیا تفرقہ احباب میں ہے
پیری کی سپیدی ہے کہ مرتا ہوں میں جوں شمع دم صبح گزرتا ہوں میں جنت کی ہوا بھری ہے سینے میں بیاںؔ ٹھنڈی ٹھنڈی جو سانس بھرتا ہوں میں
سچ ہے کہ جہاں میں سیر کیا کیا دیکھی مشرق کی طرف برق تجلی دیکھی مغرب میں وہ روشنی گئی بن کے ہلال دیکھا نہ ادھر کسی کی دیکھا دیکھی
کب کوئی فضول ہاتھ ملتا ہے بھلا مطلب کہیں اس طرح نکلتا ہے بھلا جب داہنے ہاتھ سے گرہ کھل نہ سکی کب بائیں قدم سے کام چلتا ہے بھلا
افلاس میں کیوں ٹیکس لگا رکھا ہے اسٹام کے جال میں پھنسا رکھا ہے قانون نے اک لوٹ مچا رکھی ہے اس واسطے اس کا نام لا رکھا ہے
گرمی امسال کس قیامت کی پڑی ایک ایک گھڑی ہوئی قیامت کی گھڑی امڈا یہ پسینہ یہ پڑی دھوپ کڑی بیساکھ میں لگ رہی ہے ساون کی جھڑی
جو مکتب ایجاد میں داخل ہوگا اوج اس کو فروتنی سے حاصل ہوگا دیتا ہے تواضع کا سبق عجز ہلال ناقص اسی مدرسہ میں کامل ہوگا
آوارۂ حرص در بہ در پھرتا ہے ہم سنگ فلاخن پئے زر پھرتا ہے کچھ ہاتھ بجز کلوخ آنے کا نہیں کم بخت فضول گرد سر پھرتا ہے