عزیز عادل کی غزل

    بنا کر سانحہ کوئی تماشا یہ کراتا ہے

    بنا کر سانحہ کوئی تماشا یہ کراتا ہے فلک معصوم لوگوں کو بہت آنسو رلاتا ہے میں دل کی لاش پر نوحہ کناں ہوں اور تو ظالم بلا کر شہر داروں کو مرا چہرہ دکھاتا ہے ارے حد ہو چکی بس بے حسی یہ اہل مسند کی سر بازار لاشوں کی کوئی بولی لگاتا ہے یہاں چلتا ہے میرے شہر میں قانون جنگل کا یہاں ہر ...

    مزید پڑھیے

    تم کبھی آبلے پیروں پہ سجا کر دیکھو

    تم کبھی آبلے پیروں پہ سجا کر دیکھو آگہی ملتی ہے صحراؤں میں جا کر دیکھو عرصۂ خواب کے اسرار کھلیں گے تم پر اپنی آواز میں کچھ سوز رچا کر دیکھو شاخ در شاخ قیامت کا فغاں اٹھے گا پھول پر بیٹھی ہوئی تتلی اڑا کر دیکھو کس قدر ہوتا ہے تاراج سکون گلشن پھول سے تو ذرا تتلی کو گرا کر ...

    مزید پڑھیے

    زباں تھک گئی با خدا کہتے کہتے

    زباں تھک گئی با خدا کہتے کہتے تجھے بے وفا با وفا کہتے کہتے کرم گویا مجھ کو ہے دیوانگی بھی زمانہ ہوا اک ثنا کہتے کہتے الم ہیں کہ شغل فراغت کی سوغات سر انجمن چپ ہوا کہتے کہتے زباں پر یکایک لگا قفل چپ کا کسی دوسرے کو خدا کہتے کہتے دلیل محبت اسے کیا میں دیتا وہ کہنے لگا جب سنا کہتے ...

    مزید پڑھیے

    دلبراں لوگ خوب صورت ہیں

    دلبراں لوگ خوب صورت ہیں میری جاں لوگ خوب صورت ہیں پھول جن کے نثار جاتے ہیں مہرباں لوگ خوب صورت ہیں مجھ سے مت کر شعور کی باتیں سن میاں لوگ خوب صورت ہیں خاک سے تو جنہیں بناتا ہے وہ جہاں لوگ خوب صورت ہیں بستیاں جو مری جلاتے ہوں وہ کہاں لوگ خوب صورت ہیں امن کی جستجو میں نکلے ...

    مزید پڑھیے

    حالات کی مسند سے اتر جائیں گے اک دن

    حالات کی مسند سے اتر جائیں گے اک دن ارزانیٔ وحشت میں ہی مر جائیں گے اک دن یوں دید کو اپنی ہمیں ترساؤ نہ ورنہ مر جائیں گے مر جائیں گے مر جائیں گے اک دن یہ آس بہت ہے کہ ترے دست ستم سے جتنے بھی ملے گھاؤ ہیں بھر جائیں گے اک دن ہر شام جو آ جاتے ہیں محفل کو سجانے یہ دوست ہمارے بھی بکھر ...

    مزید پڑھیے

    روزانہ کوئی کاسہ گدائی کا اٹھا کر

    روزانہ کوئی کاسہ گدائی کا اٹھا کر کوچے سے گزر جاتا ہے آواز لگا کر یہ کیسا ستم ہے کہ دکھائی نہ دے مجھ کو وہ شخص جو نکلا نہیں سینے میں سما کر دل کس کی تسلی کے لیے جلنے لگا تھا دل کس کے لیے راکھ ہوا خود کو جلا کر اک آئنہ بردار کے ماتھے پہ لکھا تھا سچ بول مگر جھوٹ کی شیرینی ملا ...

    مزید پڑھیے

    جب تک در ایوان جلایا نہیں جاتا

    جب تک در ایوان جلایا نہیں جاتا تب تک کسی حاکم کو جگایا نہیں جاتا ظالم کے ستم سے ہو اگر خلق خدا تنگ دنیا اسے کیا مار گرایا نہیں جاتا پیران عجم کیجیے تدبیر ابھی آپ دل سے تو مرے کرب کا سایا نہیں جاتا مقدور اگر ہو تو وہ پہنچانا سہولت جمہور کو انگلی پہ نچایا نہیں جاتا حالات بدل ...

    مزید پڑھیے

    مختصر شب کی طوالت نہیں کی جا سکتی

    مختصر شب کی طوالت نہیں کی جا سکتی کم کسی طور اذیت نہیں کی جا سکتی ہم نے تو ایک پری وش سے محبت کی ہے لوگ کہتے ہیں محبت نہیں کی جا سکتی لاکھ ہوتے ہوں سبب ترک سکونت کے مگر شہر جاں سے کبھی ہجرت نہیں کی جا سکتی میرے نادان مت اس کو مری فن کاری سمجھ خود پہ طاری کبھی وحشت نہیں کی جا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2