تم کبھی آبلے پیروں پہ سجا کر دیکھو

تم کبھی آبلے پیروں پہ سجا کر دیکھو
آگہی ملتی ہے صحراؤں میں جا کر دیکھو


عرصۂ خواب کے اسرار کھلیں گے تم پر
اپنی آواز میں کچھ سوز رچا کر دیکھو


شاخ در شاخ قیامت کا فغاں اٹھے گا
پھول پر بیٹھی ہوئی تتلی اڑا کر دیکھو


کس قدر ہوتا ہے تاراج سکون گلشن
پھول سے تو ذرا تتلی کو گرا کر دیکھو


رد نہیں ہوتی کبھی سنتے یہی آئے ہیں
چاندنی رات میں ملنے کی دعا کر دیکھو


منتظر کون کھڑا کون پڑا ہے در پر
تم لٹکتی ہوئی چلمن کو ہٹا کر دیکھو


بن بھی سکتا ہے محبت کا فسانہ عادلؔ
تم اسے رکھنا سدا دل میں چھپا کر دیکھو