زباں تھک گئی با خدا کہتے کہتے

زباں تھک گئی با خدا کہتے کہتے
تجھے بے وفا با وفا کہتے کہتے


کرم گویا مجھ کو ہے دیوانگی بھی
زمانہ ہوا اک ثنا کہتے کہتے


الم ہیں کہ شغل فراغت کی سوغات
سر انجمن چپ ہوا کہتے کہتے


زباں پر یکایک لگا قفل چپ کا
کسی دوسرے کو خدا کہتے کہتے


دلیل محبت اسے کیا میں دیتا
وہ کہنے لگا جب سنا کہتے کہتے


رکھوں فاصلہ اس گل نو سے عادلؔ
کہا تو نے مجھ سے یہ کیا کہتے کہتے