حالات کی مسند سے اتر جائیں گے اک دن

حالات کی مسند سے اتر جائیں گے اک دن
ارزانیٔ وحشت میں ہی مر جائیں گے اک دن


یوں دید کو اپنی ہمیں ترساؤ نہ ورنہ
مر جائیں گے مر جائیں گے مر جائیں گے اک دن


یہ آس بہت ہے کہ ترے دست ستم سے
جتنے بھی ملے گھاؤ ہیں بھر جائیں گے اک دن


ہر شام جو آ جاتے ہیں محفل کو سجانے
یہ دوست ہمارے بھی بکھر جائیں گے اک دن


یہ پھول جو گلشن میں تر و تازہ کھلے ہیں
پت جھڑ کی ہواؤں سے بکھر جائیں گے اک دن


ہم اہل محبت سبب شام و سحر ہیں
ہم دل سے زمانے کے اتر جائیں گے اک دن


ہم خواب نگاراں ہیں سدا زندہ رہیں گے
کہنے کو اگر جاں سے گزر جائیں گے اک دن