آزاد حسین آزاد کی غزل

    جیسے پردیس میں راتوں کو وطن کھینچتا ہے

    جیسے پردیس میں راتوں کو وطن کھینچتا ہے یوں ترے دشت نوردوں کو چمن کھینچتا ہے کس کی آہیں یوں سر دشت طلب گونجتی ہیں کون ویران مناظر سے تھکن کھینچتا ہے حرف آ آ کے بجاتے ہیں مرا دروازہ شعر ہو ہو کے مرے دل کی گھٹن کھینچتا ہے بوجھ ڈھونا ہے بہر طور ہو جیسے تیسے ورنہ یوں کون بصد شوق بدن ...

    مزید پڑھیے

    ہیں کیسے کیسے مراحل گہر سے آگے بھی

    ہیں کیسے کیسے مراحل گہر سے آگے بھی غزل کچھ اور ہے کار ہنر سے آگے بھی یہ شعبدے کا تجسس نہ ختم ہوگا کبھی جہان ہوگا جہان دگر سے آگے بھی بھرے جلوس میں گولی سے مارا جاؤں گا میں سوچتا ہوں خدائے بشر سے آگے بھی یہ ارد گرد کے منظر مرے شناسا ہیں گزر ہوا ہے اسی رہ گزر سے آگے بھی ورائے چشم ...

    مزید پڑھیے

    حرف و خیال و تازگی، شعری جمال اور شے

    حرف و خیال و تازگی، شعری جمال اور شے گویا وہ حسن اور ہے اس کی سنبھال اور شے دیکھ یہ تو نہیں ہے تو دیکھ یہ میں نہیں ہوں میں موت الگ معاملہ عین وصال اور شے یعنی فقیر خامشی یعنی گدائی شور ہے یعنی یہ رقص کچھ نہیں یعنی دھمال اور شے جو نے دکھائی دے سکے اس پر یقین کیجیے عین جمال اور ہے ...

    مزید پڑھیے

    سہانی یاد کا دھوکا نہ خرچ ہو جائے

    سہانی یاد کا دھوکا نہ خرچ ہو جائے مرا یہ آخری سکہ نہ خرچ ہو جائے مجھے ہے شوق مرا کم سخن کہے کچھ تو اسے ہے فکر کہ جملہ نہ خرچ ہو جائے گلاب سوکھ نہ جائے کتاب میں رکھا پس نقاب ہی چہرہ نہ خرچ ہو جائے تمہاری آنکھ میں اس واسطے نہیں تکتے ہماری پیاس پہ دریا نہ خرچ ہو جائے نہ یوں بھی ...

    مزید پڑھیے

    خود ستائی سے نہ ہم باز انا سے آئے

    خود ستائی سے نہ ہم باز انا سے آئے گو ترے شہر میں جا کر کے بھی پیاسے آئے اس جوانی میں بھی الزام سے ڈرنا حیرت کون چہرے پہ نہیں کیل مہاسے آئے اس نے اک خاص تناسب سے محبت بانٹی میرے حصے میں ہمیشہ ہی دلاسے آئے بات اوصاف کی ہے نم کی نہیں ہے بھائی لوگ بے انت سمندر سے بھی پیاسے ...

    مزید پڑھیے

    درد کا کہسار کھینچتا ہوں

    درد کا کہسار کھینچتا ہوں سانس کب ہے غبار کھینچتا ہوں عشق ہے ہی نہیں یہ تہمت ہے دل نہیں ہے میں بار کھینچتا ہوں نبض ہے ڈوبنے بھی لگتی ہے سانس ہے زور دار کھینچتا ہوں کھینچتا ہوں اسے میں اپنی طرف اور بے اختیار کھینچتا ہوں تو کوئی ساربان کرتا ہے میں خود اپنی مہار کھینچتا ہوں شعر ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرے دور کرے نور سے اجالے مجھے

    اندھیرے دور کرے نور سے اجالے مجھے کوئی تو ہو جو ترے بعد بھی سنبھالے مجھے میں مر رہا ہوں مگر سانس دے رہے ہیں بہم تمہاری ذات سے منسوب کچھ حوالے مجھے یہ رود خواب نہیں مخمصے کا دریا ہے ڈبوئے عشق کبھی جوش میں اچھالے مجھے ابھی میں ریل کی پٹری سے دور بیٹھا ہوں ابھی ہے وقت اگر ہو سکے ...

    مزید پڑھیے

    پاؤں دیکھے گی نہ تاخیر کا دکھ سمجھے گی

    پاؤں دیکھے گی نہ تاخیر کا دکھ سمجھے گی کیسے منزل کسی رہ گیر کا دکھ سمجھے گی کب سماعت پہ کوئی حرف صدا اترے گا کب وہ دستک مری زنجیر کا دکھ سمجھے گی عکس کر دوں گا میں دیوار پر اپنا چہرہ اور دنیا اسے تصویر کا دکھ سمجھے گی ہنستے ہنستے ہی سنے گی وہ مری غزلوں کو پھر مرے درد کو بھی میر ...

    مزید پڑھیے

    صاف اوراق ہیں لکھنے کی جگہ خالی ہے

    صاف اوراق ہیں لکھنے کی جگہ خالی ہے یعنی اس مانگ میں تارے کی جگہ خالی ہے نہر کے پار گیا یار نہیں پلٹا کبھی کار میں اب بھی کمینے کی جگہ خالی ہے کوئی خوش رنگ دلاسہ ہے تو لکھتے جاؤ میری دیوار پہ نعرے کی جگہ خالی ہے آج بھی کھاٹ پہ بوسیدہ بدن دیکھتا ہوں باپ کے بعد بھی کونے کی جگہ ...

    مزید پڑھیے

    رنگ کے گہرے تھے لیکن دور سے اچھے لگے

    رنگ کے گہرے تھے لیکن دور سے اچھے لگے ادھ کھلی ان کھڑکیوں پر جامنی پردے لگے خشک ہوتی بیل سے دیوار چھوٹی دفعتاً زرد پتوں کو بچاتے پھول خود گرنے لگے پکے رشتوں میں دراڑوں کی کہانی کھل گئی ڈوبنے والے کو سارے ہی گھڑے کچے لگے اک تخیل جسم اوڑھے آن بیٹھا سامنے لفظ بھی اب سوچ کو تصویر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2