پاؤں دیکھے گی نہ تاخیر کا دکھ سمجھے گی
پاؤں دیکھے گی نہ تاخیر کا دکھ سمجھے گی
کیسے منزل کسی رہ گیر کا دکھ سمجھے گی
کب سماعت پہ کوئی حرف صدا اترے گا
کب وہ دستک مری زنجیر کا دکھ سمجھے گی
عکس کر دوں گا میں دیوار پر اپنا چہرہ
اور دنیا اسے تصویر کا دکھ سمجھے گی
ہنستے ہنستے ہی سنے گی وہ مری غزلوں کو
پھر مرے درد کو بھی میر کا دکھ سمجھے گی
کیسے اوراق بتائیں گے کہانی میری
ڈایری کیوں مری تحریر کا دکھ سمجھے گی
میں وراثت میں ملا تاج محل ہوں اس کو
مجھ کو ہارے گی تو تسخیر کا دکھ سمجھے گی
مجھ کو بھولی ہے جو شہرت کو اثاثہ جانے
خود سے بچھڑے گی تو تشہیر کا دکھ سمجھے گی