رنگ کے گہرے تھے لیکن دور سے اچھے لگے
رنگ کے گہرے تھے لیکن دور سے اچھے لگے
ادھ کھلی ان کھڑکیوں پر جامنی پردے لگے
خشک ہوتی بیل سے دیوار چھوٹی دفعتاً
زرد پتوں کو بچاتے پھول خود گرنے لگے
پکے رشتوں میں دراڑوں کی کہانی کھل گئی
ڈوبنے والے کو سارے ہی گھڑے کچے لگے
اک تخیل جسم اوڑھے آن بیٹھا سامنے
لفظ بھی اب سوچ کو تصویر سا کرنے لگے
بیل نے بس سینگ بدلے اور دنیا ہل گئی
چند لمحے شہر کا جغرافیہ لکھنے لگے
بے ضرورت گھونسلے پر ایک چڑیا مضطرب
دو پرندے آج پہلی بار ہیں اڑنے لگے