ہیں کیسے کیسے مراحل گہر سے آگے بھی

ہیں کیسے کیسے مراحل گہر سے آگے بھی
غزل کچھ اور ہے کار ہنر سے آگے بھی


یہ شعبدے کا تجسس نہ ختم ہوگا کبھی
جہان ہوگا جہان دگر سے آگے بھی


بھرے جلوس میں گولی سے مارا جاؤں گا
میں سوچتا ہوں خدائے بشر سے آگے بھی


یہ ارد گرد کے منظر مرے شناسا ہیں
گزر ہوا ہے اسی رہ گزر سے آگے بھی


ورائے چشم مناظر کی کھوج جاری رکھ
نظر بڑھا ذرا حد نظر سے آگے بھی


اک اور جسم ہے میری نظر میں تجھ سا ہی
اک اور رنگ ہے رنگ سحر سے آگے بھی


اذیتیں ہیں محرم کے بعد بھی کتنی
سفر مزید ہیں ماہ صفر سے آگے بھی


پرائی آنکھ کی پتلی سہارا کیا دیتی
وہاں اک اور بھنور تھا بھنور سے آگے بھی


کھلے ہیں راز کئی میرے قتل کے مجھ پر
پڑھی ہے میں نے کہانی خبر سے آگے بھی