جیسے پردیس میں راتوں کو وطن کھینچتا ہے

جیسے پردیس میں راتوں کو وطن کھینچتا ہے
یوں ترے دشت نوردوں کو چمن کھینچتا ہے


کس کی آہیں یوں سر دشت طلب گونجتی ہیں
کون ویران مناظر سے تھکن کھینچتا ہے


حرف آ آ کے بجاتے ہیں مرا دروازہ
شعر ہو ہو کے مرے دل کی گھٹن کھینچتا ہے


بوجھ ڈھونا ہے بہر طور ہو جیسے تیسے
ورنہ یوں کون بصد شوق بدن کھینچتا ہے


ایک ہجرت ہے کہ تصویر ہوئی جاتی ہے
ایک قصہ ہے سوئے باغ عدن کھینچتا ہے


زیست اک عہد کے دھاگے سے بندھی چلتی ہے
قبر ہر روز بلاتی ہے کفن کھینچتا ہے