آزاد حسین آزاد کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    جیسے پردیس میں راتوں کو وطن کھینچتا ہے

    جیسے پردیس میں راتوں کو وطن کھینچتا ہے یوں ترے دشت نوردوں کو چمن کھینچتا ہے کس کی آہیں یوں سر دشت طلب گونجتی ہیں کون ویران مناظر سے تھکن کھینچتا ہے حرف آ آ کے بجاتے ہیں مرا دروازہ شعر ہو ہو کے مرے دل کی گھٹن کھینچتا ہے بوجھ ڈھونا ہے بہر طور ہو جیسے تیسے ورنہ یوں کون بصد شوق بدن ...

    مزید پڑھیے

    ہیں کیسے کیسے مراحل گہر سے آگے بھی

    ہیں کیسے کیسے مراحل گہر سے آگے بھی غزل کچھ اور ہے کار ہنر سے آگے بھی یہ شعبدے کا تجسس نہ ختم ہوگا کبھی جہان ہوگا جہان دگر سے آگے بھی بھرے جلوس میں گولی سے مارا جاؤں گا میں سوچتا ہوں خدائے بشر سے آگے بھی یہ ارد گرد کے منظر مرے شناسا ہیں گزر ہوا ہے اسی رہ گزر سے آگے بھی ورائے چشم ...

    مزید پڑھیے

    حرف و خیال و تازگی، شعری جمال اور شے

    حرف و خیال و تازگی، شعری جمال اور شے گویا وہ حسن اور ہے اس کی سنبھال اور شے دیکھ یہ تو نہیں ہے تو دیکھ یہ میں نہیں ہوں میں موت الگ معاملہ عین وصال اور شے یعنی فقیر خامشی یعنی گدائی شور ہے یعنی یہ رقص کچھ نہیں یعنی دھمال اور شے جو نے دکھائی دے سکے اس پر یقین کیجیے عین جمال اور ہے ...

    مزید پڑھیے

    سہانی یاد کا دھوکا نہ خرچ ہو جائے

    سہانی یاد کا دھوکا نہ خرچ ہو جائے مرا یہ آخری سکہ نہ خرچ ہو جائے مجھے ہے شوق مرا کم سخن کہے کچھ تو اسے ہے فکر کہ جملہ نہ خرچ ہو جائے گلاب سوکھ نہ جائے کتاب میں رکھا پس نقاب ہی چہرہ نہ خرچ ہو جائے تمہاری آنکھ میں اس واسطے نہیں تکتے ہماری پیاس پہ دریا نہ خرچ ہو جائے نہ یوں بھی ...

    مزید پڑھیے

    خود ستائی سے نہ ہم باز انا سے آئے

    خود ستائی سے نہ ہم باز انا سے آئے گو ترے شہر میں جا کر کے بھی پیاسے آئے اس جوانی میں بھی الزام سے ڈرنا حیرت کون چہرے پہ نہیں کیل مہاسے آئے اس نے اک خاص تناسب سے محبت بانٹی میرے حصے میں ہمیشہ ہی دلاسے آئے بات اوصاف کی ہے نم کی نہیں ہے بھائی لوگ بے انت سمندر سے بھی پیاسے ...

    مزید پڑھیے

تمام