فصل گل میں بھی تہی کیوں نہ ہو دامن اپنا

فصل گل میں بھی تہی کیوں نہ ہو دامن اپنا
باغباں اپنا فضا اپنی نہ گلشن اپنا


جرم نا شکر گزاری کی سزا کچھ تو ملے
اپنے ہاتھوں سے لٹایا تھا نشیمن اپنا


برق باری ہی سہی جشن چراغاں نہ سہی
ایک لمحے کے لیے گھر تو ہو روشن اپنا


اب تو آواز تنفس پہ یہ ہوتا ہے گماں
جیسے میں مرثیہ خواں ہوں سرمد فن اپنا


کروں کس دل سے بہاروں کی تمنا اطہرؔ
میں تو پھولوں سے جلا بیٹھا ہوں دامن اپنا