ہر نفس پر یہ گماں ہے کہ خطا ہو جیسے
ہر نفس پر یہ گماں ہے کہ خطا ہو جیسے
عمر یوں گزری کہ جینے کی سزا ہو جیسے
میں بہ ہر طور ہوں پابند شمار انفاس
ساز ہر حال میں مجبور نوا ہو جیسے
زندگی امر مشیت ہے مگر کیا کہیے
وہ ندامت ہے کوئی جرم کیا ہو جیسے
مجھ کو ہر حادثۂ عصر ہوا یوں محسوس
میرے ہی دل کے دھڑکنے کی صدا ہو جیسے
اس طرح ناز ہے دامان تہی پر مجھ کو
میری محرومی بھی اس کی ہی عطا ہو جیسے
خندۂ گل سے بھی احساس پہ یوں چوٹ لگی
میرے ہی چاک گریباں پہ ہنسا ہو جیسے
یوں نبرد آزما ہر نفس و ضمیر آج بھی ہے
زندگی معرکۂ کرب و بلا ہو جیسے
عرصۂ ذہن میں یوں فکر ہے لغزیدہ خرام
دشت پر خار میں اک آبلہ پا ہو جیسے
یوں مری زیست بھی برگشتہ ہے مجھ سے اطہرؔ
کسی بے مہر کے دامن کی ہوا ہو جیسے