تمہیں رسم وفا آئی نہ ہم طرز کرم سمجھے
تمہیں رسم وفا آئی نہ ہم طرز کرم سمجھے
غرض آئین الفت کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
مزاج گردش دوراں اگر سمجھے تو ہم سمجھے
کسی کے کاکل برہم کا عکس پیچ و خم سمجھے
جبینیں چومتی ہیں آج بھی نقش قدم ان کے
جو اہل دل ترے ابرو کو محراب حرم سمجھے
شعور بندگی ہے یا یہ اعجاز محبت ہے
کہ ہم محرومیوں کو بھی ترا حسن کرم سمجھے
ہر انساں حب دنیاوی میں تا حد جنوں گم ہے
حقیقت کو مگر دنیا کی اکثر لوگ کم سمجھے
سراب زندگی سے پھیر لے نظریں اگر کوئی
لہو کی گردش پیہم نفس کا زیر و بم سمجھے
کٹی مشق سخن میں عمر اتنی پھر بھی ہم اطہرؔ
نہ قدر حرف پہچانے نہ توقیر قلم سمجھے