رنگ لائے ہیں غم دل کے زمانے کیا کیا

رنگ لائے ہیں غم دل کے زمانے کیا کیا
اک حقیقت نے تراشے ہیں فسانے کیا کیا


اب تو مدت سے ہیں بے خواب ہماری آنکھیں
ہم نے دیکھے تھے کبھی خواب سہانے کیا کیا


کاش انسان کو ادراک ہنر ہو سکتا
ہیں نہاں پیکر خاکی میں خزانے کیا کیا


زندگی محو تماشا ہے بڑی حیرت سے
اے اجل ہیں ترے آنے کے بہانے کیا کیا


جاننا یہ بھی تو اس عہد میں دشوار ہوا
جانے کیا کیا کوئی شخص اور نہ جانے کیا کیا


اس کی اس سادہ دلی پر ترس آتا ہے مجھے
کہہ گیا مجھ سے چھپانے کے بہانے کیا کیا


میں نے کیا کیا نہ کیے اس کو بلانے کے جتن
اور کئے اس نے نہ آنے کے بہانے کیا کیا


زخم دل داغ جگر نالۂ شب آہ سحر
گل کھلائے ہیں مرے ذوق وفا نے کیا کیا


قہر ہے تذکرۂ عہد گزشتہ اطہرؔ
تازہ ہو جاتے ہیں پھر زخم پرانے کیا کیا