کیف غم لطف الم یاد آیا

کیف غم لطف الم یاد آیا
کس کا انداز کرم یاد آیا


جادۂ زیست کے ہر موڑ پہ کیوں
کاکل یار کا خم یاد آیا


کر گیا غرق ندامت دل کو
جب تری آنکھ کا نم یاد آیا


نہ گیا پھر ترے آنے کا خیال
تیرا جانا بھی نہ کم یاد آیا


پایا ظلمت سے تجلی کا شعور
دیر میں جا کے حرم یاد آیا


کھل گیا وسعت داماں کا بھرم
کیوں ترا دست کرم یاد آیہ


آ گیا نام خدا لب پہ مرے
جب وہ پتھر کا صنم یاد آیا


جی میں آیا ہی تھا جینے کا خیال
یک بیک شہر عدم یاد آیا


فکر ہے خلد‌ بداماں اطہرؔ
کوچۂ رشک ارم یاد آیا