قرب ہے وصل میسر نہیں ہونے پاتا
قرب ہے وصل میسر نہیں ہونے پاتا
کب سے اک قطرہ سمندر نہیں ہونے پاتا
اللہ اللہ یہ صناعیٔ نقاش ازل
ایک بھی نقش مکرر نہیں ہونے پاتا
اپنے قدموں سے کچل دیتا ہے سایہ میرا
جو مرے قد کے برابر نہیں ہونے پاتا
اب تو ناکام تمناؤں کے ماتم کے لیے
ایک لمحہ بھی میسر نہیں ہونے پاتا
اتنا ادراک ہے اپنے قد و قامت کا مجھے
میں کبھی جامے سے باہر نہیں ہونے پاتا
مجھ سے سرزد جو ہوا ہے وہ گنہ ہے کہ ثواب
مجھ کو محسوس بھی اکثر نہیں ہونے پاتا