Asrar Zaidi

اسرار زیدی

اسرار زیدی کی غزل

    ضبط الفت کا یہی ہم کو صلا مل جائے

    ضبط الفت کا یہی ہم کو صلا مل جائے دشت میں اور کوئی آبلہ پا مل جائے آگہی اور کئی نقش بنا سکتی ہے تم جو انسان کو ڈھونڈو تو خدا مل جائے یہی بہتر ہے کہ خود راہ میں گم ہو جائیں اس سے پہلے کہ کوئی راہنما مل جائے آؤ زنجیر کی جھنکار پہ ہم رقص کریں کیا تعجب جو یوں ہی جنس وفا مل جائے اسی ...

    مزید پڑھیے

    وجہ قرار و راحت دل زدگاں ہے تو کہ میں

    وجہ قرار و راحت دل زدگاں ہے تو کہ میں لفظ یقیں ہے تو کہ میں حرف گماں ہے تو کہ میں تیرا بھی آستاں وہی میرا بھی آشیاں وہی اس کی سحر ہے تو کہ میں اس کی اذاں ہے تو کہ میں جس کی تراش کے لئے خود کو لہو لہو کیا اب اسی رہ گزار کا سنگ گراں ہے تو کہ میں اپنی خبر سے بے خبر اپنی ہی ذات سے ...

    مزید پڑھیے

    گھر کی صورت جو بھی ہو اس پر ہراساں میں نہیں

    گھر کی صورت جو بھی ہو اس پر ہراساں میں نہیں در مقفل ہیں تو دیواروں سے لرزاں میں نہیں تجھ میں ہمت ہے سو پھر شیشے میں مجھ کو بھی اتار ہاں مگر یہ جان لے اتنا بھی آساں میں نہیں نفرتوں کی تہ میں کتنی چاہتیں ہیں یہ تو سوچ تو گریزاں ہو تو ہو تجھ سے گریزاں میں نہیں روشنی دل میں اگر ہو اک ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھا ہوں اپنے گوشۂ عزلت میں شام سے

    بیٹھا ہوں اپنے گوشۂ عزلت میں شام سے خط لکھ رہا ہوں اس کو بڑے اہتمام سے ماتھے کی یہ شکن کہیں پہلو بدل نہ لے تم خود ہی گر پڑھو کہیں اپنے مقام سے ترکش میں کوئی تیر جو باقی نہیں تو کیا کہہ دو کہ ہاتھ کھینچ لیا انتقام سے وہ لوگ جو خدا کے غضب سے ڈرے نہ تھے تھرا اٹھے ہیں آج مگر تیرے نام ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹے ہوئے پیڑ گن رہا ہوں

    ٹوٹے ہوئے پیڑ گن رہا ہوں میں اپنے پروں کو دیکھتا ہوں لب بستہ ہوں پھر بھی بولتا ہوں یار خود سے نبرد آزما ہوں بستی کوئی رہ نہ جائے باقی در در پہ صدا لگا چکا ہوں ہونٹوں پہ سکوت خامشی ہے لمحوں کے حصار میں گھرا ہوں رستے ہیں تمام اٹے اٹے سے میں کیسے کہوں گریز پا ہوں اے نہر فرات دے ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کتنی روایتیں منہدم ہوئیں ہیں

    نہ جانے کتنی روایتیں منہدم ہوئیں ہیں بپا جہاں بھی ہے شور محشر کھڑا ہوا ہوں یہ کیسا منظر ہے اس کو کس زاویے سے دیکھوں کہ خود بھی اس دائرے کے اندر کھڑا ہوا ہوں اب اس نظارے کی تاب لاؤں تو کیسے لاؤں وہی ہے میدان وہی ہے لشکر کھڑا ہوا ہوں ہزار طوفان برق و باراں ہیں ساحلوں پر لیے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    افسانۂ غم یوں بھی دل زار کہا ہے

    افسانۂ غم یوں بھی دل زار کہا ہے اک بار جو پوچھا ہے تو سو بار کہا ہے جو بات تری بزم میں ہم کہہ نہ سکے تھے اس بات کو لوگوں نے سر دار کہا ہے ممنون ہیں اس شوخ کے اے باد صبا ہم پھولوں کی زبانی جو ہمیں پیار کہا ہے ممکن ہے اسی راہ سے منزل پہ پہنچ جائیں دل والوں نے جس راہ کو دشوار کہا ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو نہ تھی اتنی تب و تاب غزل میں

    پہلے تو نہ تھی اتنی تب و تاب غزل میں کام آ گئی غم خوارئ‌ احباب غزل میں دل پر سے ترے غم کا ابھی ابر چھٹا ہے چمکا ہے تری یاد کا مہتاب غزل میں یاروں کو کسی طور بھی نشہ نہیں ہوتا جب تک کہ نہ شامل ہو مئے ناب غزل میں جس سے خلش درد کا آغاز ہوا ہے رقصاں ہے وہی پیکر سیماب غزل میں ہر مصرعۂ ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو وہ مجھ سے سوا میرا بھلا چاہتا ہے

    یوں تو وہ مجھ سے سوا میرا بھلا چاہتا ہے جانے کیوں چاہتا ہے مجھ سے وہ کیا چاہتا ہے سالہا سال سے میں تو سفر خواب میں ہوں وہی ناداں ہے کہ تعبیر وفا چاہتا ہے ہجر کی رات میں بھی درد کے آشوب میں بھی دل اسے چاہتا رہتا ہے سدا چاہتا ہے کس طرح سے دل وحشی کو بھلا سمجھاؤں وہ تو ہر دام جدا رنگ ...

    مزید پڑھیے

    کھڑا ہوں دھوپ میں سائے کی جستجو بھی نہیں

    کھڑا ہوں دھوپ میں سائے کی جستجو بھی نہیں یہ کیا ستم ہے کہ اب تیری آرزو بھی نہیں مجھے تو آج بھی تجھ پر یقین ہے لیکن ترے دیار میں انساں کی آبرو بھی نہیں ابھی تو مے کدہ ویراں دکھائی دیتا ہے ابھی تو وجد میں پیمانہ و سبو بھی نہیں تری نگاہ میں چاہت کہاں تلاش کروں تری سرشت میں شاید وفا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3